اپنا غم سنانے کو جب نہ ملا کوئی
تو رکھ دیا آئینہ سامنے اور خود کو رولا دیا
ایک غم عمر بھر کا روگ نہیں بنایا جاتا
زندگی ہے پھر سے رواں دواں ہو جائے گی
ایک وہ ہیں کہ جنہیں اپنی خوشی لے ڈوبی
ایک ہم ہیں کہ جنہیں غم نے ابھرنے نہ دیا
ایک حسرت تھی سچا پیار پانے کی
مگر نا جانے کیوں لگ گئی نظر زمانے کی؟
میرا غم کوئی نا سمجھ پایا
کیونکہ میری عادت تھی مسکرانے کی
صرف سال ہی نیا ہے
😥😥😥
غم آج بھی وہی پرانے ہیں
جب سے تم چھوڑ گئے ہو بیگانے کی طرح
مجھے غموں نے بانٹ لیا ہے خزانےکی طرح
اپنے ہاتھوں سے پونچھے ہیں اپنے آنسو
غم میں کوئی ساتھی نہیں پایا
ارے غیر تو خیر تھے
اپنوں کو بھی اپنا نہیں پایا
جس نے ادا سیکھ لی غم میں مسکرانے کی
اسے کیا مٹائیں گی گردشیں زمانے کی
خیرات میں ملی خوشی اچھی نہیں لگتی
میں اپنے غموں میں رہتا ہوں نوابوں کی طرح
لوگ ایسے ہی خاموش نہیں ہو جاتے
نہ جانے کتنا کچھ سہ چکے ہوتے ہیں
جب انسان برداشت کرنا سیکھ جائے
تو خاموش رہنے لگ جاتا ہے
جب سے تم چھوڑ گئے ہو بیگانے کی طرح
مجھے غموں نے بانٹ لیا ہے خزانے کی طرح
غم سے بڑھ کر کوئی درد نہیں ہوتا
سب جدا ہوتے ہیں غم جدا نہیں ہوتا
اس طرح ہم اپنا غم چھپاتے ہیں
😭😭💔💔💘
دل روتا ہے اور ہم مسکراتے ہیں
اے دوست غم سے اچھا اس دنیا میں کوئی نہیں ہوتا
سب جدا ہو جاتے ہیں لیکن یہ غم جدا نہیں ہوتا
ہم ہنستے ہیں تو انہیں لگتا ہے
کہ ہمیں عادت ہے مسکرانے کی
پروہ نادان اتنا بھی نہیں سمجھتے
کہ یہ ادا ہے غم چھپانے کی
لوگ چپ ہیں تو ہر گز بے حس نہ سمجھو انہیں
شدت غم سے بھی ہو جاتے ہیں پتھر چہرے
ناراض ہمیشہ خوشیاں ہی ہوتی ہیں
غموں کے اتنے نخرے نہیں ہوتے
کانٹوں میں گزار دیتا ہے گلاب اپنی زندگی
کون کہتا ہے کہ پهولوں کی زندگی میں کوئی غم نہیں ہوتا
خوشی کہاں ہم تو غم چاہتے ہیں
خوشی تو اسے دے دو جسے ہم چاہتے ہیں
خوشیاں تو کب کی روٹھ گئی ہیں
کاش کہ غموں کو بھی کسی کی نظر لگ جائے
گلہ تیری بے رخی کا نہ لب پہ صبح وشام آنے دیا
سہ لیا ہر غم نہ تجھ پہ الزام آنے دیا
ملتا نہیں اتنا غم دکھ کے طوفاں آنے سے
ہوتا ہے جتنا غم صنم کے چلے جانے سے
غم کے دریا سے نکالے کوئی
مجھے جینا ہے بچا لے کوئی
کچھ زندگی نے دئیے مجھے ہر قدم پہ غم
کچھ آپ میری حسرتوں سے کیھلتے رہے
غم کی ایک بڑی
خوبی یہ بھی ہے کہ یہ انسان کو
نرم کر دیتا ہے اور انسان اپنے
حقیقی خالق، رازق اور مالک کے
قریب تر ہو جاتا ہے
ﻧﮧ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﮨﮯ ﻧﮧ ﻏﻢ ﻧﺠﺎﺕ ﮐﯽ ﺁﺭﺯﻭ
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮﮞ تجھ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮔﻠﮧ ﮐﺮنا
آنکھیں تک نچوڑ کر پی گئے
تیرے غم کتنے پیاسے تھے