اپنے دکھوں پے ہنسنا اپنی خوشیوں پے رونا
کیا کچھ سکھا جاتا ہے کسی کا کسی سے جدا ہونا
بہت دل کرتا ہے ہنسنے کو
مگر رلا دیتی ہے کمی آپ کی
میں سوچتا ہوں جہاں پہ جدائی لکھی ہے
بس اتنے ہاتھ کے حصے جلا دیئے جائیں
میں تو رہ لوں گی تجھ سے بچھڑ کر تنہا بھی
بس دل کا سوچتی ہوں دھڑکنا نہ چھوڑ دے
یہ تیرا ہجر کوئی اور ہی غم ہے ورنہ
زخم جیسا بھی ہو کچھ روز میں بھر جاتا ہے
وقت نے صبر کرنا سیکھا دیا
ورنہ ہم تو تیرا دور جانا موت سمجھ بیٹھے تھے
یہ رابطوں میں غفلت، یہ بھولنے کی عادت
کہیں دور ہو نہ جانا، یونہی دور رہتے رہتے
لوگ جدا ہوئے اور بھی لیکن
ایک تیرا جدا ہونا مجھ کو ویران کر گیا
ہر جدائی کا سبب بیوفائی ہی نہیں ہوتا
کچھ جدائی کا سبب اک دوسرے کی بھلائی بھی ہے
کبھی اس درد سے گزرو تو معلوم ہو تم کو
جدائی وہ بیماری ہے جو دل کا خون پیتی ہے
اے جانے والے تجھ کو اتنا بھی احساس نہیں
کیا گزرے گی اس دل پہ جس کو جدائی راس نہیں
موت سے پہلے بھی اک اور موت ہوتی ہیں
دیکھو زرا تم کسی اپنے سے جدا ہو کر
مدت ہوئی بچھڑے ہوئے اک شخص کو لیکن
اب تک در و دیوار پہ خوشبو کا اثر ہے
جاو بچھڑ جاو مگر خیال رہے
یہ نہ ہو بعد میں تم کو بچھڑنے کا ملال رہے
ایک ہی اپنا ملنے والا تھا
ایسا بچھڑا کے پھر ملا ہی نہیں
تمہارے ہجر کو سہنے کے واسطے ہم نے
خدا سے عمر بڑھانے کی التجا کی ہے
تجھ سے بچھڑ کے سانس تو چلتی رہی مگر
میں خود کو زندہ دیکھ کے حیرت سے مر گیا
تجھ سے بچھڑ کے سانس تو چلتی رہی مگر
میں خود کو زندہ دیکھ کے حیرت سے مر گیا
تیرے ہجر سے تعلق کو نبھانے کے لئے
میں نے اس سال بھی جینے کی قسم کھائی ہے
اگر وہ بچھڑ کر جی سکتے ہیں
تم مر ہم بھی نہیں جائیں گے
وہ جو ہاتھ تک لگانے کو سمجھتا تھا بے ادبی
گلے لگ کے رو دیا بچھڑنے سے ذرا پہلے
یہ ٹھیک ہے کہ تیری بھی نیندیں اجڑ گئیں
تجھ سے بچھڑ کے ہم سے بھی سویا نہیں گیا
یہ بچھڑنا نہیں اجڑنا تھا
جس طرح سے جدا ہوئے ہم تم
ہم ابھی ٹھیک سے ملے بھی نہ تھے
اور گھڑی آ گئی جدائی کی
بچھڑوں گی کچھ اس طرح تم سے
قبریں کھودتے رہ جاؤ گے میرے ہم ناموں کی
انتظار یار میں زندہ ہیں خدایا ورنہ
کون جیتا ہے دنیا میں تماشا بن کر
دن رات میں بدل گیا
جب وہ آنکھوں سے اوجھل ہوا
جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی سی بات پہ کیا زندگی خراب کریں
وہ بچھڑا تو کبھی صبح نہ ہوئی
رات ہی ہوتی گئی ہر رات کے بعد
کیسے ہوتے ہیں بچھڑنے والے
ہم یہ سوچیں بھی تو ڈر جاتے ہیں
وہ پاس تھا تو زمانے کو دیکھتی ہی نہ تھیں
بچھڑ گیا تو ہوئیں پھر سے دربدر آنکھیں
تیرا بچھڑنا آنکھوں سے عیاں ہوتا ہے
درد جتنا بھی بڑھ جائے بے زباں ہوتا ہے
گلے ملتے ہیں جب کبھی دو بچھڑے ہوۓ ساتھی
ہم بے سہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
جدائی نے تیری اس قدر
ہاتھ بھی جاتے ہوئے وہ تو ملا کر نہ گیا۔
میں نے چاہا تھا جسے سینے سے لگا کر رونا۔
مرے بغیر بھی اب دن گزر رہے ہیں ترے
یقین کر تیری ہمت کی داد بنتی ہے
تیرے انداز جدائی میں بڑا سلیقہ هے جاناں
مجھ سے پہلے بھی کسی اور سے بچھڑا هے تو؟
عمر بھر منتظر رہوں گی مگر
آنے میں عمر نہ لگا دینا
وہ میرے سامنے ہی گیا اور میں
راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا
ابھی تو راکھ ہوئے ہیں تیرے فراق میں ہم
ابھی ہمارے بکھرنے کا کھیل باقی ہے
دیدار یار نہیں ہوتا تو یہ لب بھی نہیں مسکراتے
آ بھی جاؤ کہ مسکراہٹ تیرے انتظار میں ہے
ایک تم ہی نہیی میری جدائی میں پریشان ۔
ہم بھی تو تیری چاہ میں ویران بہت ہیں ۔
اس سے پوچھو عذاب رستوں کا
جس کا ساتھی سفر میں بچھڑا ہے
نہ پوچھو کیا گزرتی ہے جدا جب یار ہوتے ہیں
آنسو تیر بن کے دلوں کے پار ہوتے ہیں-
ملتا ہوں ٹوٹ کر تو بچھڑتا ہوں شان سے
میں خوش مزاج شخص بہت دل جلا بھی ہوں
ان فاصلوں کو دوریا نہ سمجھو میری جان
ڈر تو بس دلوں کے فاصلے سے لگتا ہے
جدائی تو قسمت میں تھی
ورنہ ارادہ تو قبر کے ساتھ قبر بنانے کا تھا
کتنا آساں تھا تیرے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
دور ہونے کا درد کیسا ہوتا ہے کوئی ہم سے پوچھے
تنہا راتوں میں رونا کیسا ہوتا ہے کوئی ہم سے پوچھے
بچھڑنے میں پہل کر دی
بچھڑنا تو مقدر تھا۔
اس کے ہونے سے تھیں سانسیں میری دگنی۔
وہ جو بچھڑا تو میری عمر گھٹا دی اس نے۔
قیامت سے کم نہیں تم سے جدا ہونا
نا بھول پائے گا دل تیرا الوداع ہونا
حوصلہ مجھ کو نہ تھا تجھ سے جدا ہونے کا۔
ورنہ کاجل میری آنکھوں میں نہ پھیلا ہوتا۔
مجھ کو کھو دو گے تو پچھتاو گے بہت
یہ آخری غلطی تم خوب سوچ کر کرنا
بکھر جاتے ہیں پیار بھرے سپنے ۔
ٹوٹ جاتا ہے دل جب چھوڑ جاتے ہیں اپنے ۔
اس کو دکھ ہی نہیں جدائی کا
بس یہ دکھ ہی کھا گیا مجھ کو
اب تو مقدار ہی ملا دے تو ملا دے ورنہ
ہم تو بچھڑے ہیں آندھی میں پرندوں کی طرح
خواب آنکھوں سے گئے نیند راتوں سے گئی
وہ گیا تو ایسے لگا جیسے زندگی ہاتھوں سے گئی
اک لفظ محبت تھا اک لفظ جدائی
ایک وہ لے گیا ایک مجھے دے گیا
سب آتے ہیں خیریت پوچھنے
تم آ جاؤ تو یہ نوبت ہی نہ آے
بیگانہ تھا تو کوئی شکایت نہ تھی ہمیں
آفت تو یہ ہوئی کہ وہ مل کر جدا ہوا
تھکن نہیں ہے کٹھن راستوں پہ چلنے کی
بچھڑنے والوں کے دکھ نے بہت نڈھال کیا
لاکھ کرو گزارش لاکھ دو حوالے
چھوڑ ہی جاتے ہیں چھوڑ جانے والے
سبب رونے کا وہ پوچھیں تو اتنا کہنا قاصد۔
مجھے ہنسنا نہیی آتا جہاں پہ تم نہیی۔
آ جاؤ نہ زندگی میں لوٹ کر دوبارہ
نہیں ہوتا میرا اب تمہارے بن گزارا
اتنی جلدی وہ بچھڑ جائے گا سوچا بھی نہ تھا
میں نے جی بھر کے ابھی تو اسے دیکھا بھی نہ تھا
ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﺘﮧ ہی ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﻮﭦ ﺁﻧﮯ ﺗﮏ
ھﺠﺮ ﮐﯽ ﻣﭩﯽ ﻣﺠﻬﮯ ﻣﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻼ ﺩﮮ ﮔﯽ
بہت مضبوط تھے کبھی جو
اب ٹوٹ گئے ہے تیری جدائی کے بعد۔
مت پوچھ جدائی کا سبب مجھ سے
ہر بات میرے یار بتائی نہیں جاتی
وقت کے ہاتھوں جانے کیوں؟ ہم دونوں مجبور ہوئے۔ ۔ ۔
ہم تم جانے کیوں؟ اک دوجے سے دور ہوئے۔ ۔ ۔
مڑ کر دیکھنے کی جرات وہی کرتا ہے
جس کو یہ یقین ہو کہ پیچھے کوئی منتظر ہوگا
کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہوگی۔
سنتے تھے وہ آئیں گے، سنتے تھے سحر ہو گی۔
کسی کو کیسے بتائیں بھلا کہ ہم خود بھی
ترے بچھڑنے کے اسباب کم ہی جانتے ہیں
در حقیقت خطا تھی دونوں کی
اس کو جانا تھا میں نے جانے دیا
تمھارے جدا ہونے کا دکھ ہی کافی ہے عمر بھر
کوئی اور روگ دل کو لگاہیں بھی تو کیوں؟
میری آنکھوں کے سیاہ ہلکوں پہ ہنسنے والو...
اپنے بچھڑیں تو سبھی رنگ اتر جاتے ہیں...
تیری جدائی میرے مقدر کی تقدیر بن گئی
اٹھائی جو قلم لکھنے کو تیری تصویر بن گئی
تمنا سے نہیں تنہاٸی سے ڈرتی ہوں
پیار سے نہیں رسواٸی سے ڈرتی ہوں
ملنے کی تو بہت چاہت ہے مگر
ملنے کے بعد جداٸی سے ڈرتی ہوں
کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یوں ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭ ﺭﮨﮯ
ﻋﺸﻖ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ
ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﺭﺍﮌ ﮐﻮﺋﯽ
ﮨﺠﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ
تیری جدائی کا درد سہہ نہ سکوں گا
دور تجھ سے اک پل رہ نہ سکوں گا
پیار تجھ سے اتنا کرتا ہوں جانے من
تجھ سے بیچھڑ کے زندہ رہ نہ سکوں گا
ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو
نہ چھوڑوں گا میں جیسی چاہے تم مجھ سے قسم لے لو
اب جدائی کے سفر کو مرے آسان کرو
تم مجھے خواب میں آ کر نہ پریشان کرو
زمین ہو جائے کاغذ کی
سمندر ہو جائے سیاہی کا
قلم کچھ لکھ نہیں سکتا
درد اتنا ہے جدائی کا
وہ جدائی بھی کتنی عجیب تھی کہ تجھے الوداع بھی نہ کہہ سکا؟
ترے دل میں رہنے کا خیال تھا ترے شہر میں بھی نہ رہ سکا۔
کبھی اکیلے میں کبھی تنہائی میں
درد سہا ہے ہم نے اپنوں کی جدائی میں
بچھڑ کر تجھ سے کسی اور پہ مرنا ہو گا
ہائے افسوس ہمیں یہ تجربہ بھی کرنا ہو گا
اس کو چاھا بھی تو اظہار نہ کرنا آیا
کٹ گئی عمر ھمیں پیار نہ کرنا آیا
اس نے مانگا بھی تو جدائی مانگی
اور ھم تھے کہ ھمیں انکار نہ کرنا آیا
تم نے دیا تحفہ جو مجھے جدائی کا
بن گیا وہ میرا ساتھی تنہائی کا
جدائی کا ایک بھی پل اب سہا نہیں جاتا
بن تیرے اب رہا نہیں جاتا
بتا دو نہ لوٹ کر کب آو گے
تیرے بن سانس لیا نہیں جاتا