امید نہ کر اس دنیا میں کسی سے ہمدردی کی
بڑے پیار سے زخم دیتے ہیں شدت سے چاہنے والے
ہم تو ہنستے ہیں دوسروں کو ہنسانے کی خاطر
ورنہ دل پہ زخم اتنے ہیں کہ رویا بھی نہیں جاتا
کتنے زخم دل میں چھپا لیتا ہوں
چوٹ کھا کر بھی مسکرا لیتا ہوں
جو زخم زبان سے لگتا ہے اس کو دنیا کا کوئی مرہم ٹھیک نہیں کر سکتا
وہ رفوگر بھی کہاں تک کرے محنت مجھ پر
زخم اک سلتا نہیں دوسرا لگ جاتا ہے
زخم دینے والے بھی اپنے
اور مرہم لگانے ولے بھی اپنے
زخم مجھے خنجر نہ دے سکا ٹوٹ کر زمین پہ گر گیا
تیری زباں نے مجھے وہ زخم دیا آنکھ سے نکلا آنسو دامن پہ گر گیا
سرد سرد موسم میں زرد زرد ہونٹوں پر
چپ کا جو پہرا ہے کوئی تو زخم گہرا ہے
زخم دینے والے تو بہت ہیں
لیکن مرہم لگانے والا کوئی نہیں
سزا ایسی ملی مجھ کو زخم ایسے لگے دل پر
چھپاتا تو جگر جاتا سناتا تو بکھر جاتا
جس زخم سے خون نہیں نکلتا
وہ اکثر اپنوں کا ہی دیا ہوتا ہے
دل میں کتنے زخم ہیں کسی کو کیا پتہ
یہ اور بات ہے کہ ہم مسکرا کے جیتے ہیں رولانے والوں کے سامنے
تجھ سے تو اچھے زخم ہیں میرے
اتنی ہی تکلیف دیتے ہیں
جتنی برداشت کر سکوں
اتنا کھایا نہیں تھا نمک تیرا
جتنا چھڑکا ہے تم نے زخموں پر
ابھی سے میرے رفو گر کے ہاتھ تھکنے لگے
ابھی تو چاک میرے زخم کے سلے بھی نہیں
کانٹوں سے کیا گلہ وہ تو مجبور ہیں اپنی فطرت سے
درد تو تب ہوا جب پھول بھی زخم دینے لگے
تھا کوئی جو میرے دل کو زخم دے گیا
زندگی بھر رونے کی قسم دے گیا
لاکھوں پھولوں میں سے ایک پھول چنا تھا میں نے
جو کانٹوں سے بھی گہرا زخم دے گیا
ڈال دینا میری لاش پے کفن اپنے ہی ہاتھوں سے
کہیں تیرے دیے ہوٸے زخم کوٸی اور نہ دیکھ لے
اک یہ خواہش کہ کوئی زخم نہ دیکھے دل کا
اک یہ حسرت کہ کوئی دیکھنے والا ہوتا
وہ زخم ہی کیا جس کا مرہم نہ ہو
وہ دل ہی کیا جس میں غم نہ ہو
وہ آنکھ ہی کیا جو کبھی نم نہ ہو
وہ زندگی ہی کیا جس میں تم نہ ہو
تمہارے لگائے ہوئے زخم کیوں نہیں بھرتے
ہمارے تو لگائے ہوئے پیڑ تک سوکھ جاتے ہیں